واشنگٹن،31مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)امریکی اسپیشل آپریشنز کے نائب کمانڈر جنرل تھامس ٹاسک نے باور کرایا ہے کہ اُن کی قیادت اس وقت پینٹاگون کے مطالبے پر ایران کے حوالے سے تجربات اور مشقیں کر رہی ہے.. اور اسپیشل آپریشنز کی قیادت کا کام عسکری اور سیاسی قیادت کو آپشنز دینا ہے۔ انہوں نے یہ بات واشنگٹن میں ایک لیکچر کے دوران کہی۔جنرل ٹاسک نے انکشاف کیا کہ اُن کی قیادت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ تمام امکانات کے لیے منصوبے وضع کریں۔ اس وقت منصوبہ ساز خاص طور پر ایران کے نیٹ ورکوں اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ نیٹ ورکوں کو ایرانی ساختہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران ان کو اپنے اور دیگر علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان بفر زون کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
امریکی جنرل نے واضح کیا کہ یہ نیٹ ورک مشرق وسطی کے ممالک کے علاوہ ، افریقہ ، جنوبی امریکا اور یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایران انہیں مالی رقوم فراہم کر کے اپنے مفاد کے لیے کام لیتا ہے۔ جنرل ٹاسک نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایران نے شام میں پاسداران انقلاب اور اپنی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی مدد کے لیے اپنی مسلح افواج کے افسران کو بھیجا۔جنرل ٹاسک نے واضح کیا کہ امریکی منصوبوں میں اکثر طور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے ساتھ براہ راست مقابلے کا منظر نامہ پیش نہیں کیا جاتا ہے۔ تاہم امریکا اور حلیف طاقتوں کے درمیان تعاون کی تجویز دی جاتی ہے تا کہ ایران کے لیے کام کرنے والی ان طاقتوں کے اثر کو کم کیا جا سکے۔
ادھر سینٹرل ریجن کے سابق نائب کمانڈر امریکی ریٹائرڈ ایڈمرل مارک فوکس کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا مگر ایران کے تصرفات ہمیشہ کشیدگی اور تناؤ کے طرف لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی پانی میں امریکی بحریہ کے ایرانی افواج کے ساتھ رابطے پیشہ ورانہ نوعیت کے ہیں جو بین الاقوامی پانی میں تمام فریقوں کے حق کی عکاسی کرتے ہیں۔ فوکس کے مطابق ایران مستقبل میں شام اور عراق جیسے مقامات پر بھی لبنانی حزب اللہ کا تجربہ دہرانے کے لیے کام کرے گا۔دی امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ میں ایران سے متعلق مطالعہ تیار کرنے والے میتھیو میک آئنز کا کہنا ہے کہ ایران حالیہ عرصے میں عراق میں اپنے رسوخ میں کامیاب ہو گیا ہے اور بہت سے سرکاری ذمے داران وزیر اعظم حیدر العبادی کے بجائے ایران سے احکامات اور ہدایات حاصل کرتے ہیں۔
میتھیو نے خبردار کیا کہ عراق میں داعش پر قابو پانے کے بعد ایران کے لیے جگہ خالی ہو جانے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ کے دوران عراق درحقیقت ایرانی سکیورٹی نظام کا ایک حصہ بن چکا ہے لہذا عراق میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔امریکی ذمے داران اور مذکورہ محقق کی جانب سے یہ مواقف ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی انتظامیہ نے ایران کے ساتھ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے۔ امریکی صدر نے اس حوالے سے 3 ماہ کی مہلت کا اعلان کیا۔ میک آئنز کے مطابق موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایرانی نیوکلیئر معاہدے کے متن کے سبب تشویش لاحق ہے تاہم ایران موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ تصادم کا خطرہ مول نہیں لے گا۔